رونا ہے، کہ تُو لوٹ کے آنے کا نہیں ہے
کیوں بانٹتا پھرتا ہے تُو معصوم ادائیں؟
کیوں تجھ کو ذرا خوف زمانے کا نہیں ہے؟
کچھ کچھ میں تو پردہ بھی ضروری ہے ذرا سا
ہر قصہ تجھے کھل کے سنانے کا نہیں ہے
میں نے ہی تو اس جا پہ بٹھایا تھا نہ تجھ کو
اب تُو ہی مجھے پاس بٹھانے کا نہیں ہے
میں خوش ہوں تو کچھ اور سبب ہی ہے خوشی کا
یہ فیض مجھے، تجھ کو بھلانے کا نہیں ہے
رخصت تجھے کرتے ہوئے اندازہ لگایا
یہ وقت تو اندازہ لگانے کا نہیں ہے
اس دل کی جگہ دل نہیں اک زخم ہے! اک زخم!
اور زخم بھی ایسا کہ دکھانے کا نہیں ہے
جو کہنا ہے اب زین! اسے صاف ہی کہہ دو
جب فائدہ کچھ بھی تو چھپانے کا نہیں ہے
زین شکیل