اتنی فرصت کسے میسر ہے
پھر بھی یہ حوصلہ تمہارا ہے
میرے بارے میں سوچتی ہو تم
زندگی اس لیے بھی پیاری ہے
میری ہر سانس تم سے وابسطہ
زندگی سے جڑی ہوئی ہو تم
بین کرتی ہیں دھڑکنیں جس پر
میرے اندر مزار ہے شاید
میرے اندر ہی مر گئی ہو تم
خواب ہو یا سراب ہو کوئی
رتجگوں سے جو رات کی ٹھہری
کس قدر گہری دوستی ہو تم
حشر برپا ہے اب کہیں مجھ میں
اب مجھے خود پہ اختیار نہیں
میرے اندر بکھر گئی ہو تم
زین شکیل