محبت کے درختوں سے کوئی پتہ بھی گر جائے
ہوا کو چوٹ لگتی ہے
عجب وحشت کے عالم میں ہوا یوں سنسناتی ہے
اسے رستہ نہیں ملتا
کوئی تو دشت ہو ایسا جہاں دیوار ہو غم کی
جہاں وہ سر پٹخ ڈالے
مگر بے درد آندھی کو خبر شاید نہیں کہ جب
محبت کے درختوں سے کوئی پتہ اگر ٹوٹے
تو اک اک شاخ کو اس سے بچھڑ جانے کا کتنا رنج ہوتا ہے
جڑوں کی آخری حد تک بلا کا درد رہتا ہے
ہوا کو اس سے کیا مطلب
اسے تو ایک ہی پتے کا ماتم کرنا ہوتا ہے
ہوا تو شور کرتی ہے
اور اس کے شور سے کتنے ہی پتے پھر اُجڑتے ہیں
اُسے کیسے خبر ہو گی کہ تنہا پیڑ بے چارہ
سلگتی دھوپ میں تنہا، تھکا ہارا، کھڑا
نہ بیٹھ سکتا ہے
نہ آنسو پونچھ سکتا ہے
مگر وہ پھر بھی سایہ دار ہے
اپنی جگہ قائم
فقط خاموش اور ساکت
مگراکثر وہ کچھ کچھ بُڑبڑاتا، بولتا ، باتیں بھی کرتا ہے
وہی باتیں کہ جو بے چین سا اک شخص اس پر لکھ دیا کرتا
کسی بچھڑے ہوئے کے نام کچھ یادوں کی صورت میں۔۔
سنو!
تم جب کبھی تنہا کسی بھی پیڑ کے سائے میں بیٹھو
تو کبھی کچھ بھی نہیں لکھنا
نا میرا نام اپنے ساتھ، نا اپنا علیحدہ سے
محبت کا شجر سب کچھ سمجھتا ہے
اُسے پڑھنا بھی آتا ہے
تمہیں میں اس لیے محتاط کرتا ہوں
کہ اُس کا بخت اپنا ہے
تم اپنا اور میرا نام اپنے دل میں ہی لکھو تو بہتر ہے۔
جب اپنے بخت سے تم لڑ نہیں سکتیں
تو پھر کس واسطے پیڑوں کو اپنا دکھ سناتی ہو
انہیں کیو نکر ستاتی ہے
وہ اپنے درد سے عاجز تمہارا دُکھ کہاں بانٹیں؟
محبت کے درختوں سے گرے ،بکھرے ہوئے پتے جہاں دیکھو
اُٹھاؤ!
اپنے آنچل میں سمیٹو
اور واپس لوٹ کر آؤ!!
سو ممکن ہے تمہارا درد بَٹ جائے!
زین شکیل