کچھ تو کہو‘‘ایسی

’’کچھ تو کہو‘‘
ایسی کیا بات بتا دی ہے اداسی نے تجھے
یہ جو تُو مجھ سے بہت دُور ہوا جاتا ہے
سچ کہوں پھر میں کبھی جھوٹ نہیں بول سکا
نیلی آنکھوں کی قسم جب بھی اٹھائی میں نے
تُو تو بس ایسے ہی ناراض ہوا ہے مجھ سے
تیرے ناراض رویے کے تشدد کے سبب
میرا ہر زخم ہی ناسور ہوا جاتا ہے
یہ جو تُو مجھ سے بہت دُور ہوا جاتا ہے
میں نے تیری تو کوئی بات نہ کی تھی اُس سے
میں تو گھُل مِل کے بھی اُس پر نہ کبھی کھُل پایا
آرزوؤں کے سَتَر کتنے چھپائے میں نے
تُو نے پھر مجھ کو بہ دامانِ دریدہ سمجھا
رات تو رات رہی اس کا گلہ کیا کرنا
مجھ کو ہر دن نے بھی بس خواب گزیدہ سمجھا
ان المناک حوادث سے بھرے جیون میں
ہر شبِ ہجر مِرے ہوش رُبا کاٹوں گا
اب کسی جرم کا الزام لگے یا نہ لگے
میں تجھے یاد تو کرنے کی سزا کاٹوں گا
کیا پتا اب میں تجھے یاد رہوں یا نہ رہوں
تجھ سے، ممکن ہے مِرا عکس بھی گم ہو جائے
ہو بھی سکتا ہے ترے ہاتھ اٹھیں میرے لیے
ہو بھی سکتا ہے کہ یوں مجھ پہ کرم ہو جائے
عالمِ سوگ ہے آنکھوں کو تو نم رہنے دے
یہ نہ ہو بعد میں تردیدِ الم ہو جائے
جانے کیا بات بتا دی ہے اُداسی نے تجھے؟
یہ جو تُو مجھ سے بہت دور ہوا جاتا ہے
تُو یہ کیوں ہوش میں بیٹھا ہے بتا میرے ’کلیم‘؟
دل تو جل جل کے مِرا طُور ہوا جاتا ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *