کبھی کبھی تو سنہرا سا

کبھی کبھی تو سنہرا سا خواب لگتی تھیں
قریب ہو کے بھی مجھ کو سراب لگتی تھیں
میں اس کی باتیں جو سنتا تو ہوش کھو دیتا
گناہ جیسی تھیں پھر بھی ثواب لگتی تھیں
ہر اک کو بانٹتی پھرتی تھیں مسکراہٹ بھی
بہت غریب تھیں، لیکن نواب لگتی تھیں
وہ شاعرانہ سی باتیں نہ تھیں، حقیقت تھی!
مجھے جو آپ کی آنکھیں کتاب لگتی تھیں
نہ جانے کیسے سہولت سے سہہ لیا اُس نے
اُسے تو ہجر کی باتیں عذاب لگتی تھیں
فقط حسین نہیں، اور حسین تر بھی نہیں
مجھے وہ حسن کا لُب لباب لگتی تھیں
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *