عہدِ نارسائی میں، خوابِ زندگی لے کر
دور تک بھٹکتے تھے
جانتے تو تم بھی تھے!
راکھ راکھ ہو کر بھی، خاک خاک ہو کر بھی
ہاتھ کچھ نہیں آتا
خواب کی مسافت ہے، ہاتھ خالی رہتے ہیں
مانتے تو تم بھی تھے!
اور باوجود اس کے نیند کو لٹا کر بھی
چین کو گنوا کر بھی،
ہر شبِ عبادت میں، زار زار اکھیوں کے
اشک رکھ ہتھیلی میں،
ہچکیوں کے پھندے میں، میرا نام لے لے کر،
مجھ کو اپنے مولا سے
مانگتے تو تم بھی تھے!
عشق کے عقیدے میں، فہم کیا؟ فراست کیا؟
کارِ عقل کیا معنی؟
عشق کے مخالف گر لاکھ ہی دلیلیں ہوں
جس قدر حوالے ہوں، مستند نہیں ہوتے
مانتے تو تم بھی تھے!
اور ساری دنیا سے، پھر چھڑا کے دامن کو
میری ذات میں آ کر، خود کو سونپ دینے کا
سوچتے تو تم بھی تھے!
اب کی بات چھوڑو تم۔۔
اب میں کچھ نہیں کہتا
کچھ نہیں کہوں گا میں،
اب فقط سہوں گا میں،
اب تو چپ رہوں گا میں
کچھ گلہ نہیں تم سے،
یاد بس دلایا ہے
اس طرح سے ہوتا تھا
عہدِ نارسائی میں
اب میں کچھ نہیں کہتا۔۔۔
زین شکیل