عشق کہاں جانے والاتھا

عشق کہاں جانے والاتھا اب کے بن بدنام کیے
پہلے ہم کو گروی رکھا پھر جذبے نیلام کیے
خود پر تہمت آپ لگائی خود پر ہی الزام دھرے
دیکھو ہم نے بعد تمہارے کیسے کیسے کام کیے
جتنی عمر گزار آیا ہوں ساری تیرے نام پیا
اب جتنے لمحات بچے ہیں وہ بھی تیرے نام کیے
تُو پل بھر خاموش رہے تو ایسا لگنے لگتا ہے
جیسے عرصہ بیت گیا ہو تیرے ساتھ کلام کیے
اُسکی لاج رکھی اور خالی ہاتھ وہیں پر چھوڑ آئے
جس کے دَر پر وِرد وظیفے ہم نے صبح و شام کیے
چلتے چلتے تھک بھی جائیں تو بھی فرق نہیں پڑتا
اب تو مدت بیت گئی ہے زین ہمیں، آرام کیے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *