جب تری شہر میں رسوائی نہیں ہوتی تھی
اس کی یہ صفت تھی، ملنے مجھے آ جاتی تھی
جب اسے یاد مری آئی نہیں ہوتی تھی
مجھ کو افسوس ہے میں اشک ترے چن نہ سکا
مجھ سے نقصان کی بھرپائی نہیں ہوتی تھی
کیا عجب عشق عدالت تھی جہاں پل بھر میں
فیصلے ہوتے تھے، شنوائی نہیں ہوتی تھی
پھول تھی، بانٹتی رہتی تھی مہک ہر جانب
دوست ہوتی تھی وہ ہرجائی نہیں ہوتی تھی!
اب میں کمرے میں ترے ہوتے ہوئے تنہا ہوں
پہلے کچھ اور تھا، تنہائی نہیں ہوتی تھی
تیرے بارے میں لکھا کرتا تھا اپنا کر کے
پھر بھی ہر بات تو نظمائی نہیں ہوتی تھی
زین شکیل