سنو اے مضطرب میرے!
اگر جنگل اداسی کا گھنا رستے میں آجائے
تو پھر ڈرنا نہیں اس سے
لباسِ خون آلودہ پہ اب کوئی بھروسہ بھی نہیں کرتا
تمہارے خط بڑے شاداب تھے سچ مچ
مگر زیادہ انہیں پڑھتا نہیں تھا میں
کہیں تم آنکھ سے بہہ بہہ کے اپنا عکس
ہی نہ توڑ ڈالو خود
فقط اس واسطے میں نے جلا ڈالے تمہارے خط
ابھی کل شام ہی آئی اداسی اور میری
بے کلی کے ہاتھ پر بوسہ دیا
اور میری بے چینی کے قدموں کو چھوا تھا
پھر مری آنکھوں سے میری روح میں اتری
بنا پوچھے
مگر اس میں مری مرضی بھی شامل تھی
یقیں جانو!
سواد آیا!
مری بے کیف سی بوجھل طبیعت میں
وہ کیسے رنگ بھرنے لگ گئی آہا۔۔۔۔مزہ آیا
مگر اے مضطرب میرے
تمہیں اس ذات کے سارے حوالوں سے ابھی کٹنا نہیں تھا چاہیے
کیونکہ
وہ جب چاہے
جہاں چاہے
جسے چاہے
ملا دے اس کو قدرت ہے
مری آوارگی کے اک پیاسے دشت کے اس آخری کونے میں اے بہتے ہوئے چشمے
مرے اے مضطرب اے میرے پژمردہ
تبھی شکوہ کرو اس سے کہ جب وہ دوست ہو جائے
اسے کب دیر لگتی ہے
کہ وہ بس “کن” ہی کہتا ہے
اسے بس “کن” ہی کہنا ہے۔۔۔۔
زین شکیل