رکھتا تھا لمحہ لمحہ جسے

رکھتا تھا لمحہ لمحہ جسے میں سنبھال کر
وہ شخص خوش ہوا مرے آنسو نکال کر
اس درسگاہِ عشق کا قانون ہے اُلَٹ
پہلے جواب ڈھونڈ کے لا، پھر سوال کر
یہ ضبط اب تو جبر ہی لگنے لگا مجھے
آ اب تو یاد، آ مرے آنسو بحال کر
کیسے وہ میری ذات کا کرتا پھر اعتصام
اس نے تو ایک خط نہیں رکھا سنبھال کر
اندھوں کا شہر اندھے کا اندھا ہی رہ گیا
میں آ گیا فضول میں آنکھیں اچھال کر
اک باپ، جیسے بیٹے کو گھر سے نکال کر
یوں رو رہا ہوں آنکھ سے سپنے نکال کر
منہ پھیرنے سے پہلے ذرا یہ تو سوچتے
آیا تھا تیرے پاس میں کس کس کو ٹال کر
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *