چھوڑو اب ایسے، کہاں یار کِیا کرتے ہیں..!
تُو نے جیون میں، بہاروں کو ابھی دیکھنا ہے
تیرے ہونے سے کسی اور کا ہونا بھی تو ہے
اب تجھے یہ بھی بتانے کی ضرورت تو نہیں
“روٹھ جانے سے گزارے تو نہیں ہوتے ناں”
یہ تجھے کس نے کہا تُو نے کہیں جانا ہے
تجھ کو خاموش پرندوں کی دعائیں بھی لگیں
خواہشوں کے سبھی پیڑوں کو ہرا رہنا ہے
آسرا پل کا بھی ہو صدیوں پہ رہتا ہے محیط
اور دلاسے تو مری جان یونہی ہوتے ہیں
کچھ بھی ہو لب سے تو مسکان اٹھاتے نہیں ہیں
چاہنے والوں کو ایسے تو رُلاتے نہیں ہیں
جو بھی ہے، غم ترے چہرے پہ بُرا لگتا ہے
یار! تُو پیارا ہے، ہنستے ہی بھَلا لگتا ہے
تجھ سے مایوس ترانہ نہیں سننا ہم نے
اس طرح سے تجھے جانے نہیں دینا ہم نے
ہر کوئی شخص تجھے دل سے دعا دیتا ہے۔۔۔
تُو نے کہسارِ اذیت بھی کیے سَر کتنے
تیری خاطر یہ دعاؤں کے کھلے در کتنے
تیری دنیا یہ ترا سارا جہاں سبز رہے
ہے دعا برگِ گُلِ عمرِ رواں سبز رہے
عشق کے رَس میں گھُلے لوگ کہاں مرتے ہیں
چھوڑو اب ایسے، کہاں یار کِیا کرتے ہیں۔۔۔!
زین شکیل