(گو ٹو ہیل)
رات گزر گئی
گزر گئی ناں!
دن ڈھلنا ہے ڈھل جائے گا
سیدھی بات کروں گا تم سے
دیواروں سے لگ لگ رونا، مجھ سے اب یہ نہ ہووے ہے!
اور نظامِ یاد کا پُرزہ کہیں کہیں سے ٹوٹ گیا ہے
ایک تخیل ذہن سے کوئی جسم پہن کر نکل پڑا ہے
میرے سینے آن لگا ہے اور میں نے محسوس کیا ہے
سخت بخار میں تپتا بھی ہے اور پیشانی سرد بہت ہے
رات کی گہری خاموشی میں
آوازوں کے ہونٹ ہلے ہیں
خاموشی کی بَک بَک سُن کر میرے کان بجے جاتے ہیں
میرے سر میں درد بہت ہے
پہلے ہی بے چین بہت ہوں فکر کروں تو آخر کس کی
کچھ بھی ٹھیک نہیں لگتا ہے
میں بد حال جو خجل خوار،
زمانہ گردی کرتے کرتے ایک پرائی اور اُدھاری
عمر جو تنہا کاٹ رہا ہوں
کٹتے کٹتے کٹ جائے گی
لیکن پچھلے دو سالوں سے
قُرب و جوار کے چند اک آتش زن اور زہریلے کتوں کی
بھونکن وا سن سن کر میں تو
خود اب کافی سٹھیایا ہوں
مجھ کو بے حس، بے احساسا،
بے پروا، بد عہد یا گھٹیا وٹیا تم کو جو بھی ٹھیک لگے یا جو بھی
نام مجھے تم دینا چاہو دے سکتی ہو ….. پر دوشیزہ!
کوئی سا بھی جسم پہن کر کسی تخیل کی صورت بھی
اب تم میرے پاس نہ آؤ
جو کہنا ہے جانے مِری بلا تم جا کر
جس کو چاہو جو بتلاؤ
لیکن میرا سر نہ کھاؤ
دوشیزہ تم بھاڑ میں جاؤ….
زین شکیل