تِرا غم ہی مجھے بہتر لگے گا
مری بستی کو شاید بدعا ہے
جسے دیکھو وہی بے گھر لگے گا
حریمِ جاں مجھے معلوم کب تھا
مِرا لہجہ تجھے پتھر لگے گا
جدائی میری عادت ہو چکی تھی
اُسے لگتا تھا مجھ کو ڈر لگے گا
نبھانے میں گزر جاتی ہیں عمریں
بچھڑنے میں تو لمحہ بھر لگے گا
تُو کتنی عام ہوتی جا رہی ہے
ترا الزام کس کس پر لگے گا
زین شکیل