خود کو میں توڑ کے پھر

خود کو میں توڑ کے پھر جوڑ کے لاؤں! جاؤں؟
یعنی اب میں نہ کوئی بات سناؤں؟ جاؤں؟
تم بھی پہلی سی توجہ نہیں دیتے مجھ پر
جی تو کرتا ہے تمہیں اب نہ ستاؤں، جاؤں!
ایک مدت سے بلایا جو نہیں ہے تُو نے
اب یہ حسرت ہے ترے شہر میں آؤں، جاؤں!
شہر نے چھین لیا مجھ سے مِرا بھولا پن
سوچتا ہوں کہ میںاب گاؤں بھی آؤں، جاؤں!
اب تجھے روکنا اچھا بھی نہیں لگتا ناں
تو نے بھی رَٹ ہی لگا لی ہے کہ جاؤں، جاؤں؟
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *