کون کہتا ہے کہ تم نے مجھے کم دیکھا تھا
آئینہ آج اٹھایا تو بہت روتے رہے
اپنی صورت کی جگہ ہم نے الم دیکھا تھا
آج کی رات وحی درد بھری اترے گی
آج پھر آپکی آنکھوں کو جو نم دیکھا تھا
اب جو ہر بات پہ روتے ہوئے ہنس دیتا ہے
جانے اس شخص نے کس طرز کا غم دیکھا تھا
تھام کر ہاتھ سلیقے سے گرا دیتے تھے
شہر والوں کا کئی بار کرم دیکھا تھا
عشق میں دو کا تصور نہیں ہو سکتا ناں
ہم نے اک ذات میں اک ذات کو ضم دیکھا تھا
زین شکیل