جیسے بس اب ہر اک دکھ

جیسے بس اب ہر اک دکھ میں ہوتے ہوں غمخوار آنسو
چھوٹی چھوٹی بات پہ نکلیں ایسے زار قطار آنسو
یعنی میری درد ریاضت ساری ہی بے فیض رہی؟
جذبوں کی ہر شدت ضائع، یعنی سب بے کار آنسو؟
وہ ہر بار اداس پلٹ کر جاتا ہے ہم سے مل کر
جب آتا ہے، ہوتے ہیں ان آنکھوں میں ہر بار آنسو
جانے کیوں وہ میری آنکھیں دیکھے جاتا ہے، پاگل
ان میں باقی بچے ہوئے ہیں اب تو بس دو چار آنسو
اب تو یہ معمول ہوا پر ایک زمانہ وہ بھی تھا
جب اپنی آنکھوں میں آتے تھے بس کبھی کبھار آنسو
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *