’’چپ کر جھلّے کچھ نئیں ہوتا‘‘ پھر خود کو سمجھاتا ہوں
لگتا ہے کچھ بھول رہا ہوں جب بھی گھر سے نکلوں تو
سارا رخت اٹھا لیتا ہوں خود کو گھر چھوڑ آتا ہوں
جو سننے کو ترس رہے ہیں اُن سے بات نہیں کرتا
جو آواز نہیں سن پاتے اُن کو روز بُلاتا ہوں
میری بے تُکّی، گھٹیا سی اور فضول سی باتوں کو
وہ بھی سن کر ہنس دیتا ہے، میں بھی چپ ہو جاتا ہوں
زین میں اُس سے صحیح سلامت ملنے جاتا ہوں اور وہ
آدھا مجھ کو لے جاتا ہے، آدھا واپس آتا ہوں
زین شکیل