چاہتوں کی باتوں کے دائمی حوالوں سے
دیکھ لو نکل آئے
جان ہم تری خاطر
ہم تو اب نصیبوں کا بھی گلہ نہیں کرتے
شاعروں کے بختوں میں رونقیں نہیں ہوتیں
یہ عجیب ہوتے ہیں
جنگلوں، پہاڑوں میں اک نگر بساتے ہیں
خواب کے سہارے پر
شہر میں تو رہتے ہیں
بَس مگر نہیں پاتے
ہم بھی ٹھیک ویسے تھے
شاعروں کے جیسے تھے
شہر کاٹ کھاتا تھا، بے کلی ستاتی تھی
جان تیری باتوں نے کس طرح بدل ڈالا
درد بھی نہیں لکھتے
آہ بھی نہیں بھرتے
اور بیتی چاہت کو یاد بھی نہیں کرتے
جان ہم تری خاطر
اب تو مانگتے ہیں بس
ان تمام چیزوں کو، ہر طرح کی خوشیوں کو
جو کبھی نہ مانگیں تھیں
اب خدا سے کہتے ہیں
اے خدائے بحر و بر!
آپ کو کمی کیا ہے؟
اب تو وہ سبھی کچھ دیں، جس کی خواہشیں نہ تھیں
جان تیری خاطر ہم
اب خدا سے مانگ آئے
جو کبھی نہ مانگا تھا
جو کبھی نہ پایا تھا
اور اس سے زیادہ اب کچھ بھی کر نہیں سکتے
زور بھی نہیں چلتا
بس چلا نہیں سکتے
جان! اب اگر اپنا حال نہ بدل پایا
بخت سے سیاہی کے ابر چھٹ نہیں پائے
پھر خدا کی مرضی ہے
اس سے اب گلہ کیسا
اس سے لڑ نہیں سکتے
وہ بہت بڑا ہے ناں
ہم بہت ہی چھوٹے ہیں
کچھ بھی تو نہیں ہیں ہم
صبر کرتے آئے ہیں، صبر ہی کریں گے ہم
تُو تو جانتی ہے ناں
خود کو ہیں بدل لائے
جان ہم تیری خاطر
اب بھی کچھ شکایت ہو،
اب بھی کچھ گلہ ہو تو،
اب بھی تُو خفا ہو تو،
جان تیری مرضی ہے۔۔۔۔
زین شکیل