تم مرے درد کی ریاضت

تم مرے درد کی ریاضت ہو
تم مرے درد کی ریاضت ہو
تم مرے ضبط کی عمارت ہو
تم مری آخری محبت ہو
تم توکل تمہی توصل ہو
تم توجہ تمہی تغافل ہو
تم توقع تمہی تسلی ہو
تم کہاں ہو کہاں نہیں ہو تم
تم یقیں ہو گماں نہیں ہو تم
تم ہمارے ہو! کیا نہیں ہو تم؟
تم مرے گیت کی زباں ٹھہرے
تم مرے درد کی فغاں ٹھہرے
تم جہاں بھی گئے نشاں ٹھہرے
تم تپوبَن ہو میری دنیا کا
تم تپسیا مری محبت کی
تم تحیّر مری بصارت کا
تم کبھی مل کے کھو بھی سکتی ہو
تم کبھی چھپ کے رو بھی سکتی ہو
تم تو راتوں میں سو بھی سکتی ہو
تم پریشان اب نہیں ہو، ناں؟
تم تو حیران اب نہیں ہو، ناں؟
تم مری جان اب نہیں ہو، ناں؟
تم تو یوں بے پناہ تھے مجھ میں
تم تھے پھیلے سبھی مناظر میں
تم کو تسلیم کر لیا میں نے
تم محبت کرو تو بہتر ہے
تم کسے راس آؤ گے بولو
تم ہمارے رہو تو بہتر ہے
تم تمازت سے ڈر گئے کیونکر
تم تپش تھے ہمارے جذبوں کی
تم تخیل ہماری سانسوں کا
تم ہی تصویر تم تصور بھی
تم ہی تدبیر تم مدبر بھی
تم ہی تاثیر تم تاثر بھی
تم مری ہر خوشی مرا غم بھی
تم مرے آنسوؤں کا موسم بھی
تم کسی شب کی زلفِ برہم بھی
تم سے تم تک پہنچ نہیں سکتا
تم مگر پھر بھی پاس رہتے ہو
تم مجھے پھر بھی راس رہتے ہو
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *