تجھے آدھے آدھے حروف میں مجھے سارا لکھنا ہے صندلیں!
یہی خواب آنے کا وقت ہے، یہ کسی کے آنے کا وقت ہے
پہ میں کیا کروں مِرا نیند سے، ابھی رابطہ نہیں ہو سکا
سبھی عمر بھر کی ریاضتیں، تجھے ایک پل میں ہی سونپتے
مگر اب نصیب کا فیصلہ نہیں اپنے حق میں تو کیا کریں
تھے زباں پہ چھالے پڑے ہوئے، وہ یہ چاہتا تھا صدائیں دوں
میں اُسے بلاتا تو کس طرح، مری بے بسی ہی نہ جا سکی
کبھی مجھ سے وہ بھی تو پوچھتا، مِرا حال اپنی زبان سے
سو وہ کر بھی سکتا ہے کیا بھلا جو ہو قید اپنی اناؤں میں
زین شکیل