بچھڑ جائے گا وہ بھی

بچھڑ جائے گا وہ بھی خامشی سے
چُنا جس نے مجھے اپنی خوشی سے
کہیں تیری صدا گھائل نہ کر دے
سو ہم گزرے نہیں تیری گلی سے
عداوت مول لی ہے شہر بھر کی
یہی اچھی تھی تیری دوستی سے
قسم سے بھول پاتا ہی نہیں ہوں
مجھے دیکھا تھا تُو نے بے دلی سے
وہ میرے گھر میں رُکتا بھی تو کیسے
جو خائف تھا مری بوسیدگی سے
مرے اندر فقط اک تُو نہیں ہے
میں کتنا بھر چکا تیری کمی سے
وہ صفحہ پھاڑ کر کیوں لے گئے تم
یہ دکھ جاتا نہیں ہے ڈائری سے
مجھے تو چاند تم جیسا لگا تھا
مرا کیا واسطہ تھا چاندنی سے
تمہیں یوں کب تلک لکھتا رہوں میں
بہت اکتا گیا ہوں شاعری سے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *