ہم نے پتھر کو بہر طور گہر جانا ہے
جس طرح رات کٹی دن بھی گیا ہاتھوں سے
اس طرح ہم نے کسی شام گزر جانا ہے
یہ جو دریا ہے کسی یاد کا بپھرا دریا
اِس نے چپ چاپ سمندر میں اتر جانا ہے
چاند کو ہم نے بتانا ہے ترے بارے میں
آج تو ہم نے بڑی دیر سے گھر جانا ہے
ایک مدت سے اجڑتے ہی چلے آئے ہیں
ایک لمحے میں کہاں ہم نے سنور جانا ہے
اور پھر میرے سوا کون سہے اس کے ستم
اور اِک اس کے سوا میں نے کدھر جانا ہے
زین مالا سا ہمیں اس نے پرو رکھا ہے
ہم نے چُپ چاپ کسی روز بکھر جانا ہے
زین شکیل