برسوں سے بجھ گئے ہیں ہم، اب بھی دھواں نہیں گیا
اب بھی وہ ایک واقعہ، دل کو ادھیڑتا ہے زین
وہ جو وہاں پہ آگیا، تو جو وہاں نہیں گیا
کچھ بھی بچا نہیں ہوا، اپنا تو سب اجڑ گیا
آج بھی دل سے ایک بس، خوفِ زیاں نہیں گیا
تم سے جو اب ملوں کبھی، دینا مجھے پتہ مرا
جانے کہاں گیا ہوں میں، جانے کہاں نہیں گیا
ہم یہ جو خوش مزاج ہیں، ہنستے ہیں کو بہ کو مگر
اب بھی ہماری آنکھ سے، غم کا نشاں نہیں گیا
ہوتی نہیں ہے زین جی اپنی تلاش ختم کیوں
وہ تو وہاں چلا گیا، میں بھی جہاں نہیں گیا
زین شکیل