پاس تو ہے جس کے وے ہی کل کہیں گے دور ہو
دیکھ کر وہ راہ چلتا ہی نہیں ٹک ورنہ ہم
پاؤں اس کے آنکھوں پر رکھ لیویں جو منظور ہو
شہر دل کی کیا خرابی کا بیاں باہم کریں
اس کو ویرانہ نہ کہیے جو کبھو معمور ہو
ہم بغل اس سنگ دل سے کاشکے اس دم ہوں جب
شیشۂ مے پاس ہووے اور وہ مخمور ہو
عشق دلکش ذبح ہے پر کھیل قدرت کا ہے میرؔ
صرف کریے اس میں اپنا جس قدر مقدور ہو