اتفاق ایسا ہے کڑھتے ہی سدا رہتے ہیں

اتفاق ایسا ہے کڑھتے ہی سدا رہتے ہیں
ایک عالم میں ہیں ہم وے پہ جدا رہتے ہیں
برسے تلوار کہ حائل ہو کوئی سیل بلا
پیش کچھ آؤ ہم اس کوچے میں جا رہتے ہیں
کام آتا ہے میسر کسے ان ہونٹوں سے
بابت بوسہ ہیں پر سب کو چما رہتے ہیں
دشت میں گرد رہ اس کی اٹھے ہے جیدھر سے
وحش و طیر آنکھیں ادھر ہی کو لگا رہتے ہیں
کیا تری گرمی بازار کہیں خوبی کی
سینکڑوں آن کے یوسف سے بکا رہتے ہیں
بسترا خاک رہ اس کی تو ہے اپنا لیکن
گریۂ خونیں سے لوہو میں نہا رہتے ہیں
کیوں اڑاتے ہو بلایا ہمیں کب کب ہم آپ
جیسے گردان کبوتر یہیں آ رہتے ہیں
حق تلف کن ہیں بتاں یاد دلاؤں کب تک
ہر سحر صحبت دوشیں کو بھلا رہتے ہیں
یاد میں اس کے قد و قامت دلکش کی میرؔ
اپنے سر ایک قیامت نئی لا رہتے ہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *