اس تک کوشش سے بھی نہ پہنچے جان سے آخر سارے گئے

اس تک کوشش سے بھی نہ پہنچے جان سے آخر سارے گئے
عاشق اس کی قامت کے بالا بالا مارے گئے
اس کے روئے خوئے کردہ پہ نقاب لیے وہ صورت ہے
جیسے یکایک سطح ہوا پر بدلی آئی تارے گئے
ایسے قماری سے دل کو لگا کر جیتے رہنا ہو نہ سکا
رفتۂ شاہد بازی اس کے جی بھی اپنا ہارے گئے
چارہ گر اس شہر کے ہوں تو فکر کریں آبادی کا
یارب بستے تھے جو یاں وے لوگ کہاں بیچارے گئے
مشکل میرؔ نظر آتا تھا اٹھنا بار امانت کا
آئے ہم تو سہولت سے وہ بوجھ اٹھا کر بارے گئے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *