اس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے کو آ جاتا ہوں

اس سے گھبرا کے جو کچھ کہنے کو آ جاتا ہوں
دل کی پھر دل میں لیے چپکا چلا جاتا ہوں
سعی دشمن کو نہیں دخل مری ایذا میں
رنج سے عشق کے میں آپھی کھپا جاتا ہوں
گرچہ کھویا سا گیا ہوں پہ تہ حرف و سخن
اس فریبندۂ عشاق کی پا جاتا ہوں
خشم کیوں بے مزگی کاہے کو بے لطفی کیا
بد بر اتنا بھی نہ ہو مجھ سے بھلا جاتا ہوں
استقامت سے ہوں جوں کوہ قوی دل لیکن
ضعف سے عشق کے ڈھہتا ہوں گرا جاتا ہوں
مجلس یار میں تو بار نہیں پاتا میں
در و دیوار کو احوال سنا جاتا ہوں
گاہ باشد کہ سمجھ جائے مجھے رفتۂ عشق
دور سے رنگ شکستہ کو دکھا جاتا ہوں
یک بیاباں ہے مری بیکسی و بیتابی
مثل آواز جرس سب سے جدا جاتا ہوں
تنگ آوے گا کہاں تک نہ مرا قلب سلیم
بگڑی صحبت کے تئیں روز بنا جاتا ہوں
گرمی عشق ہے ہلکی ابھی ہمدم دل میں
روز و شب شام و سحر میں تو جلا جاتا ہوں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *