آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر یار دیکھنا

آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر یار دیکھنا
عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاک قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا
آنکھیں چرائیو نہ ٹک ابر بہار سے
میری طرف بھی دیدۂ خونبار دیکھنا
اے ہم سفر نہ آبلے کو پہنچے چشم تر
لاگا ہے میرے پاؤں میں آ خار دیکھنا
ہونا نہ چار چشم دل اس ظلم پیشہ سے
ہشیار زینہار خبردار دیکھنا
صیاد دل ہے داغ جدائی سے رشک باغ
تجھ کو بھی ہو نصیب یہ گلزار دیکھنا
گر زمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہم صفیر
اس فصل ہی میں ہم کو گرفتار دیکھنا
بلبل ہمارے گل پہ نہ گستاخ کر نظر
ہو جائے گا گلے کا کہیں ہار دیکھنا
شاید ہماری خاک سے کچھ ہو بھی اے نسیم
غربال کر کے کوچۂ دلدار دیکھنا
اس خوش نگہ کے عشق سے پرہیز کیجو میرؔ
جاتا ہے لے کے جی ہی یہ آزار دیکھنا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *