کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو
کب تک گرہ رہے گا سینے میں دل کے مانند
اے اشک شوق اک دم رخسار پر رواں ہو
ہم دور ماندگاں کی منزل رساں مگر اب
یا ہو صدا جرس کی یا گرد کارواں ہو
مسند نشین ہو گر عرصہ ہے تنگ اس پر
آسودہ وہ کسو کا جو خاک آستاں ہو
تا چند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
اے آہ صبح گاہی آشوب آسماں ہو
گر ذوق سیر ہے تو آوارہ اس چمن میں
مانند عندلیب گم کردہ آشیاں ہو
یہ جان تو کہ ہے اک آوارہ دست بر دل
خاک چمن کے اوپر برگ خزاں جہاں ہو
کیا ہے حباب ساں یاں آ دیکھ اپنی آنکھوں
گر پیرہن میں میرے میرا تجھے گماں ہو
از خویش رفتہ ہر دم رہتے ہیں ہم جو اس بن
کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو
پتھر سے توڑ ڈالوں آئینے کو ابھی میں
گر روئے خوبصورت تیرا نہ درمیاں ہو
اس تیغ زن سے کہیو قاصد مری طرف سے
اب تک بھی نیم جاں ہوں گر قصد امتحاں ہو
کل بت کدے میں ہم نے دھولیں لگائیاں ہیں
کعبے میں آج زاہد گو ہم پہ سرگراں ہو
ہمسایہ اس چمن کے کتنے شکستہ پر ہیں
اتنے لیے کہ شاید اک باؤ گل فشاں ہو
میرؔ اس کو جان کر تو بے شبہ ملیو رہ پر
صحرا میں جو نمد مو بیٹھا کوئی جواں ہو