کر ہاتھ ٹک ملا کے کوئی پہلواں ہلاک
میں چل بسا تو شہر ہی ویران سب ہوا
اس نیم جاں کے بدلے ہوا یک جہاں ہلاک
مقصود گم ہے پھرتا جو رہتا ہے رات دن
ہلکان ہو کے ہو گا کبھو آسماں ہلاک
اس ظلم کیش کی ہے طرب گاہ ہر کہیں
عاشق خدا ہی جانے ہوا ہے کہاں ہلاک
جی میرؔ نے دیا نہ ہوا لیک وصل یار
افسوس ہے کہ مفت ہوا یہ جواں ہلاک