ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا

ایک نہ خواہش بر آئی تا جی کا غبار نکل جاتا
کاشکے آہو چشم اپنا آنکھوں کو پاؤں سے مل
آتش دل کی لپٹوں کا ہے یارو کچھ عالم ہی جدا
لائحہ کوئی کھینچتا سر تو سارا عالم جل جاتا
نعرہ کرنا عاشق کا ہے ساتھ اک ہیبت کے یعنی
سن آواز اس شیر نر کی سیل بلا سے دہل جاتا
اہل زمیں تو کیا ہیں ان کا سہل تھا راہ سے لے جانا
چرخ پہ ہوتا وہ جو چھلاوا خیل ملک کو چھل جاتا
کشتی زبردستوں کی اس سے پاک ہوئی تو کیا ہے عجب
رستم سامنے ہو جاتا تو راہ بچا کر ٹل جاتا
غم سے ہو گر زرد سراسر صورت ساری خزاں کی سی
آن نکلتے سوئے چمن تو رنگ ہوا کا بدل جاتا
ڈھلتے ڈھلتے ضعف سے آئے میرؔ سو ان نے منھ پھیرا
یاقوتی سے بوسۂ لب کی جی شاید کہ سنبھل جاتا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *