چھاتی پہ بعد مرگ بھی دل جم ہے زیر خاک
آسودگی جو چاہے تو مرنے پہ دل کو رکھ
آشفتگی طبع بہت کم ہے زیر خاک
تنہا تو اپنی گور میں رہنے پہ بعد مرگ
مت اضطراب کریو کہ عالم ہے زیر خاک
مجنوں نہ تھا کہ جس کے تئیں سونپ کر مروں
آشفتگی کا مجھ کو نپٹ غم ہے زیر خاک
رویا تھا نزع میں میں اسے یاد کر بہت
اب تک مری ہر ایک مژہ نم ہے زیر خاک
کیا آسماں پہ کھینچے کوئی میرؔ آپ کو
جانا جہاں سے سب کو مسلم ہے زیر خاک