پند گو مشفق عبث میرا نصیحت گر ہوا

پند گو مشفق عبث میرا نصیحت گر ہوا
سختیاں جو میں بہت کھینچیں سو دل پتھر ہوا
گاڑ کر مٹی میں روئے عجز کیا ہم ہی موئے
خون اس کے رہگذر کی خاک پر اکثر ہوا
اب اٹھا جاتا نہیں مجھ پاس پھر ٹک بیٹھ کر
گرد اس کے جو پھرا سر کو مرے چکر ہوا
کب کھبا جاتا تھا یوں آنکھوں میں جیسا صبح تھا
پھول خوش رنگ اور اس کے فرش پر بچھ کر ہوا
کیا سنی تم نے نہیں بدحالی فرہاد و قیس
کون سا بیمار دل کا آج تک بہتر ہوا
کون کرتا ہے طرف مجھ عاشق بیتاب کی
صورت خوش جن نے دیکھی اس کی سو اودھر ہوا
جل گیا یاقوت اس کے لعل لب جب ہل گئے
گوہر خوش آب انداز سخن سے تر ہوا
کیا کہوں اب کے جنوں میں گھر کا بھی رہنا گیا
کام جو مجھ سے ہوا سو عقل سے باہر ہوا
شب نہ کرتا شور اس کوچے میں گر میں جانتا
اس کی بے خوابی سے ہنگامہ مرے سر پر ہوا
ہووے یارب ان سیہ رو آنکھوں کا خانہ خراب
یک نظر کرتے ہی میرے دل میں اس کا گھر ہوا
استخواں سب پوست سے سینے کے آتے ہیں نظر
عشق میں ان نو خطوں کے میرؔ میں مسطر ہوا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *