جامے کا دامن پاؤں میں الجھا ہاتھ آنچل اکلائی کا
پاس سے اٹھ چلتا ہے وہ تو آپ میں میں رہتا ہی نہیں
لے جاتا ہے جا سے مجھ کو جانا اس ہرجائی کا
حال نہ میرا دیکھے ہے نہ کہے سے تامل ہے اس کو
محو ہے خود آرائی کا یا بے خود ہے خودرائی کا
ظاہر میں خورشید ہوا وہ نور میں اپنے پنہاں ہے
خالی نہیں ہے حسن سے چھپنا ایسے بھی پیدائی کا
یاد میں اس کی قامت کی میں لوہو رو روسوکھ گیا
آخر یہ خمیازہ کھینچا اس خرچ بالائی کا
بعد مرگ چراغ نہ لاوے گور پہ وہ عاشق کی آہ
جیتے جی بھی داغ ہی تھا میں اس کی بے پروائی کا
چشم وفا اخوان زماں سے سادہ ہو سو رکھے میرؔ
قصہ ہے مشہور زمانہ پہلے دونوں بھائی کا