یہ کیا روش ہے آؤ چلے ٹک ادھر کبھو
دریا سی آنکھیں بہتی ہی رہتی تھیں سو کہاں
ہوتی ہے کوئی کوئی پلک اب تو تر کبھو
جی جانے ہے جو اپنے پہ ہوتی ہے مار مار
جاتے ہیں اس گلی میں کہاں ہم مگر کبھو
آنکھیں سفید ہو چلی ہیں راہ دیکھتے
یارب انھوں کا ہو گا ادھر بھی گذر کبھو
مدت ہوئی ہے نامہ کبوتر کو لے گئے
آ جاتی ہے کچھ اڑتی سی ہم تک خبر کبھو
ہم جستجو میں ان کی کیے دست و پا بھی گم
افسوس ہے کہ آئے نہ وہ راہ پر کبھو
غم کو تمھارے دل کے نہایت نہیں ہے میرؔ
اس قصے کو کرو گے بھی تم مختصر کبھو