گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا
سنگ مجھے بجاں قبول اس کے عوض ہزار بار
تابہ کجا یہ اضطراب دل نہ ہوا ستم ہوا
کس کی ہوا کہاں کا گل ہم تو قفس میں ہیں اسیر
سیر چمن کی روز و شب تجھ کو مبارک اے صبا
کن نے بدی ہے اتنی دیر موسم گل میں ساقیا
دے بھی مئے دو آتشہ زور ہی سرد ہے ہوا
وہ تو ہماری خاک پر آ نہ پھرا کبھی غرض
ان نے جفا نہ ترک کی اپنی سی ہم نے کی وفا
فصل خزاں تلک تو میں اتنا نہ تھا خراب گرد
مجھ کو جنون ہو گیا موسم گل میں کیا بلا
جان بلب رسیدہ سے اتنا ہی کہنے پائے ہم
جاوے اگر تو یار تک کہیو ہماری بھی دعا
بوئے کباب سوختہ آتی ہے کچھ دماغ میں
ہووے نہ ہووے اے نسیم رات کسی کا دل جلا
میں تو کہا تھا تیرے تیں آہ سمجھ نہ ظلم کر
آخرکار بے وفا جی ہی گیا نہ میرؔ کا