ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے
آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا
تم حرف سر کرو گے ہم گریہ سر کریں گے
عذر گناہ خوباں بدتر گنہ سے ہو گا
کرتے ہوئے تلافی بے لطف تر کریں گے
سر جائے گا ولیکن آنکھیں ادھر ہی ہوں گی
کیا تیری تیغ سے ہم قطع نظر کریں گے
اپنی خبر بھی ہم کو اب دیر پہنچتی ہے
کیا جانے یار اس کو کب تک خبر کریں گے
گر دل کی تاب و طاقت یہ ہے تو ہم نشیں ہم
شام غم جدائی کیونکر سحر کریں گے
یہ ظلم بے نہایت دیکھو تو خوبرویاں
کہتے ہیں جو ستم ہے ہم تجھ ہی پر کریں گے
اپنے بھی جی ہے آخر انصاف کر کہ کب تک
تو یہ ستم کرے گا ہم درگذر کریں گے
صناع طرفہ ہیں ہم عالم میں ریختے کے
جو میرؔ جی لگے گا تو سب ہنر کریں گے