تیرے ہوتے شام کو گر بزم میں آ جائے شمع

تیرے ہوتے شام کو گر بزم میں آ جائے شمع
ہو خجل ایسی کہ منھ اپنا نہ پھر دکھلائے شمع
کیا جلے جاتے ہیں تجھ سے سب دیے سے دیکھتے
گر یہی یاں کا ہے ڈھب تو حیف مجلس وائے شمع
کس کے تیں ہوتا ہے قطع زندگانی کا یہ شوق
سر کٹانے کو گلے میں جمع ہیں رگ ہائے شمع
کچھ نہیں مجھ میں درونے کی جلن سے اس طرح
کھا چلا ہے جیسے اک ہی داغ سر تا پائے شمع
داغ ہو کر جان دی ان نے تمھارے واسطے
مشت خاک میرؔ پر سو تم نہ لے کر آئے شمع
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *