عاشق زار کو مار رکھے ہے ایک ابرو کی اشارت میں
گذرے گر دل میں ہو کر تو ایک نگاہ ضروری ہے
کچھ کچھ تیرے غم نے لکھا ہے آ کر واں کی عمارت میں
سوکھ کے میں تو عشق کے غم میں خس کی مثال حقیر ہوا
وہ تقصیر نہیں کرتا ہے اب تک میری حقارت میں
ایک بگولا ساتھ مجھے بھی تربت قیس پہ لے آیا
کتنے غزال نظر واں آئے تھے مشغول زیارت میں
دل کو آگ اک دم میں دے دی اشک ہوئے چنگاری سے
کیا ہی شریر ہے شوخی برق ملائی ان نے شرارت میں
شیخ جو تھا دیدار بتاں کا منکر ایسا تھا معذور
دل کو بصیرت تھی نہ اس کے بے نوری تھی بصارت میں
خط و کتابت ایک طرف ہے دفتر لکھ لکھ بھیجے میرؔ
کہیے کچھ جو صریر قلم کی کوتاہی ہو سفارت میں