دل کے پہلو سے ہم آتش میں ہیں اور آب میں ہیں
ساتھ اپنے نہیں اسباب مساعد مطلق
ہم بھی کہنے کے تئیں عالم اسباب میں ہیں
غفلت دل سے ستم گذریں ہیں سو مت پوچھو
قافلے چلنے کو تیار ہیں ہم خواب میں ہیں
عشق کے ہیں گے جو سرگشتہ پڑے ہیں ڈوبے
کشتیاں نکلیں سو کیا آن کے گرداب میں ہیں
دور کیا اس سے جو بیٹھے ہے غبار اپنا دور
پاس اس طور کے بھی عشق کے آداب میں ہیں
ہے فروغ مہ تاباں سے فراغ کلی
دل جلے پرتو رخ سے ترے مہتاب میں ہیں
ہم بھی اس شہر میں ان لوگوں سے ہیں خانہ خراب
میرؔ گھر بار جنھوں کے رہ سیلاب میں ہیں