جو جنون و عشق کی تدبیر ہے

جو جنون و عشق کی تدبیر ہے
سو نہ یاں شمشیر نے زنجیر ہے
وصف اس کا باغ میں کرنا نہ تھا
گل ہمارا اب گریباں گیر ہے
دیکھ رہتا ہے جو دیکھے ہے اسے
دلربا آئینہ رو تصویر ہے
پائے گیر اس کے نہ ہوں کیوں درد مند
حلقہ حلقہ زلف وہ زنجیر ہے
صید کے تن پر ہیں سب گلہ اے زخم
کس قدر خوش کار اس کا تیر ہے
مدت ہجراں نے کی نے کچھ کمی
میرے طول عمر کی تقصیر ہے
خط نہ لکھتے تھے سو تاب دل گئی
دفتروں کی اکثر اب تحریر ہے
رکھ نظر میں بھی خراب آبادیاں
اے کہ تجھ کو کچھ غم تعمیر ہے
سخت کافر ہیں برہمن زادگاں
مسلموں کی ان کے ہاں تکفیر ہے
گفتگو میں رہتے تھے آگے خموش
ہر سخن کی اب مرے تقریر ہے
نظم محسنؔ کی رہی سرمشق دیر
اس مرے بھی شعر میں تاثیر ہے
مر گئے پر بھی نہ رسوائی گئی
شہر میں اب نعش بھی تشہیر ہے
کیا ستم ہے یہ کہ ہوتے تیغ و طشت
ذبح کرنے میں مرے تاخیر ہے
میرؔ کو ہے کیا جوانی میں صلاح
اب تو سارے میکدے کا پیر ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *