طیور ہی سے بَکا کریں گے گلوں کے آگے بُکا کریں گے
قرار دل سے کیا ہے اب کے کہ رک کے گھر میں نہ مریئے گا یوں
بہار آئی جو اپنے جیتے تو سیر کرنے چلا کریں گے
ہلاک ہونا مقرری ہے مرض سے دل کے پہ تم کڑھو ہو
مزاج صاحب اگر ادھر ہے تو ہم بھی اپنی دوا کریں گے
برا ہے دل کا ہمارے لگنا لگانا غصے سے عاشقی کے
نچی جبیں سے گلی میں اس کی خراب و خستہ پھرا کریں گے
وصال خوباں نہ کر تمنا کہ زہر شیریں لبی ہے ان کی
خراب و رسوا جدا کریں گے ہلاک مل کر جدا کریں گے
اگر وہ رشک بہار سمجھے کہ رنگ اپنا بھی ہے اب ایسا
ورق خزاں میں جو زرد ہوں گے غم دل ان پر لکھا کریں گے
غم محبت میں میرؔ ہم کو ہمیشہ جلنا ہمیشہ مرنا
صعوبت ایسی دماغ رفتہ کہاں تلک اب وفا کریں گے