تری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے
کٹے ہے دیکھیے یوں عمر کب تلک اپنی
کہ سنیے نام ترا اور چشم تر کریے
وہ مست ناز تو مچلا ہے کیا جتایئے حال
جو بے خبر ہو بھلا اس کے تیں خبر کریے
ہوا ہے دن تو جدائی کا سو تعب سے شام
شب فراق کس امید پر سحر کریے
جہاں کا دید بجز ماتم نظارہ نہیں
کہ دیدنی ہی نہیں جس پہ یاں نظر کریے
جیوں سے جاتے ہیں ناچار آہ کیا کیا لوگ
کبھو تو جانب عشاق بھی گذر کریے
ستم اٹھانے کی طاقت نہیں ہے اب اس کو
جو دل میں آوے تو ٹک رحم میرؔ پر کریے