باقی نہیں ہے چھاتی میں اپنی تو جائے داغ
چشم و دل و دماغ و جگر سب کو رو رہے
اس عشق خانہ سوز نے کیا کیا دکھائے داغ
جی جل گیا تقرب اغیار دیکھ کر
ہم اس گلی میں جب گئے تب واں سے لائے داغ
کیا لالہ ایک داغ پہ پھولے ہے باغ میں
بہتیرے ایسے چھاتی پہ ہم نے جلائے داغ
کیا شیخ کے ورع میں تردد ہے ہم نے آپ
سو بار اس کے کرتے سے مے کے دھلائے داغ
آخر کو روئے کار سے پردہ اٹھے گا کیا
مقدور تک تو چھاتی کے ہم نے چھپائے داغ
دل کی گرہ میں غنچۂ لالہ کے رنگ میرؔ
سوز دروں سے کچھ نہیں ہے اب سوائے داغ