جانا ہی تھا ہمیں بھی بہار چمن کے ساتھ
کب تک خراب شہر میں اس کے پھرا کریں
اب جاویں یاں سے کوئی غریب الوطن کے ساتھ
ہم باغ سے خزاں میں گئے پر ہزار حیف
جانا بنا نہ اپنا گل و یاسمن کے ساتھ
لکنت سے کیا نکلتی نہیں اس کے منھ سے بات
چپکا ہے حرف یار کے شیریں دہن کے ساتھ
جی خواب مرگ لے گئی حسرت ہی میں ندان
اک شب نہ سوئے ہم کسو گل پیرہن کے ساتھ
جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے
کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ
کیا جانیں لوگ عشق کا راز و نیاز میرؔ
اک بات اس سے ہو گئی دو دو بچن کے ساتھ