ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے
بے قراری سے دل زار کی آزار ہوئے
خواہش اس حد کو کھنچی آہ کہ بیمار ہوئے
جنس دل دونوں جہاں جس کی بہا تھی اس کا
یک نگہ مول ہوا تم نہ خریدار ہوئے
عشق وہ ہے کہ جو تھے خلوتی منزل قدس
وے بھی رسوائے سر کوچہ و بازار ہوئے
سیر گلزار مبارک ہو صبا کو ہم تو
ایک پرواز نہ کی تھی کہ گرفتار ہوئے
اس ستمگار کے کوچے کے ہوا داروں میں
نام فردوس کا ہم لے کے گنہگار ہوئے
وعدۂ حشر تو موہوم نہ سمجھے ہم آہ
کس توقع پہ ترے طالب دیدار ہوئے
سستی بخت تو ٹک دیکھ کہ اس چاہت پر
معتمد غیر ہوئے ہم نہ وفادار ہوئے
میرؔ صاحب سے خدا جانے ہوئی کیا تقصیر
جس سے اس ظلم نمایاں کے سزاوار ہوئے