چہرہ تمام زرد زر ناب سا ہوا
شاید جگر گداختہ یک لخت ہو گیا
کچھ آب دیدہ رات سے خوناب سا ہوا
وے دن گئے کہ اشک سے چھڑکاؤ سا کیا
اب رونے لگ گئے ہیں تو تالاب سا ہوا
اک دن کیا تھا یار نے قد ناز سے بلند
خجلت سے سرو جوئے چمن آب سا ہوا
کیا اور کوئی روئے کہ اب جوش اشک سے
حلقہ ہماری چشم کا گرداب سا ہوا
قصہ تو مختصر تھا ولے طول کو کھنچا
ایجاز دل کے شوق سے اطناب سا ہوا
عمامہ ہے موذن مسجد کہ بارخر
قد تو ترا خمیدہ ہو محراب سا ہوا
بات اب تو سن کہ جائے سخن حسن میں ہوئی
خط پشت لب کا سبزۂ سیراب سا ہوا
چل باغ میں بھی سوتے سے اٹھ کر کبھو کہ گل
تک تک کے راہ دیدۂ بے خواب سا ہوا
ـسمجھے تھے ہم تو میرؔ کو عاشق اسی گھڑی
جب سن کے تیرا نام وہ بیتاب سا ہوا