صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی
وا شد کچھ آگے آہ سے ہوتی تھی دل کے تیں
اقلیم عاشقی کی ہوا اب بگڑ گئی
گرمی نے دل کی ہجر میں اس کے جلا دیا
شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی
خط نے نکل کے نقش دلوں کے اٹھا دیے
صورت بتوں کی اچھی جو تھی سب بگڑ گئی
باہم سلوک تھا تو اٹھاتے تھے نرم گرم
کاہے کو میرؔ کوئی دبے جب بگڑ گئی