دیدۂ گریاں ہمارا نہر ہے

دیدۂ گریاں ہمارا نہر ہے
دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے
آندھی آئی ہو گیا عالم سیاہ
شور نالوں کا بلائے دہر ہے
دل جو لگتا ہے تڑپنے ہر زماں
اک قیامت ہے غضب ہے قہر ہے
بہ نہیں ہوتا ہے زخم اس کا لگا
آب تیغ یار یکسر زہر ہے
یاد زلف یار جی مارے ہے میرؔ
سانپ کے کاٹے کی سی یہ لہر ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *