شب گئے تھے باغ میں ہم ظلم کے مارے ہوئے

شب گئے تھے باغ میں ہم ظلم کے مارے ہوئے
جان کو اپنی گل مہتاب انگارے ہوئے
گور پر میری پس از مدت قدم رنجہ کیا
خاک میں مجھ کو ملا کر مہرباں بارے ہوئے
آستینیں رکھتے رکھتے دیدۂ خونبار پر
حلق بسمل کی طرح لوہو کے فوارے ہوئے
وعدے ہیں سارے خلافی حرف ہیں یکسر فریب
تم لڑکپن میں کہاں سے ایسے عیارے ہوئے
پھرتے پھرتے عاقبت آنکھیں ہماری مند گئیں
سو گئے بیہوش تھے ہم راہ کے ہارے ہوئے
پیار کرنے کا جو خوباں ہم پہ رکھتے ہیں گناہ
ان سے بھی تو پوچھتے تم اتنے کیوں پیارے ہوئے
تم جو ہم سے مل چلے ٹک رشک سب کرنے لگے
مہرباں جتنے تھے اپنے مدعی سارے ہوئے
آج میرے خون پر اصرار ہر دم ہے تمھیں
آئے ہو کیا جانیے تم کس کے سنکارے ہوئے
لیتے کروٹ ہل گئے جو کان کے موتی ترے
شرم سے سر در گریباں صبح کے تارے ہوئے
استخواں ہی رہ گئے تھے یاں دم خوں ریز میرؔ
دانتے پڑ کر نیمچے اس شوخ کے آرے ہوئے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *